Tuesday, December 3, 2024

سیرت کی تدریس۔ سید عزیز الرحمان

سیرت کی تدریس
یہ حقیقت تو واضح ہے کہ چاہے مدارس ہوں یا کالج اور یونیورسٹیز سیرت کی تدریس کا کوئی اہتمام موجود نہیں ۔اس کا بڑا سبب ایسی کسی کتاب کی عدم موجودگی بھی ہے جو تدریسی ضرورتوں کی تکمیل کر سکے ۔
سیرت طیبہ کے حوالے سے لکھی جانے والی تقریبا ہر کتاب کچھ نہ کچھ رہنمائی فراہم کرتی ہے. کسی نہ کسی نئے پہلو سے قارئین کو آشنا کرتی ہے, اس لیے ہر کتاب ہمارے لئے اہم ہے, محترم ہے اور سیرت کی نسبت سے مقدس بھی. لیکن ہر کتاب انسانی کاوش ہے, ہر کتاب کے مولف کے پیش نظر ایک مقصد رہا ہے, اس بنا پر کبھی انسانی فروگذاشتوں کے سبب, کبھی مقصد تحریر کے مختلف ہونے کی وجہ سے, ہر کتاب میں کسی نہ کسی پہلو سے کمی بھی پائی جاتی ہے, اغلاط بھی موجود ہوتی ہیں, قابل نقد پہلو بھی رہ جاتے ہیں. سیرت کی تدریس کے لیے کسی بھی کتاب کو منتخب کرنے سے پہلے اس کتاب میں درج ذیل پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے:
الف: کتاب مختصر ہو
ب : مضامین سیرت کی جامع ہو
ج : کتاب کا اسلوب تحریر سادہ ہو
د : کتاب کا مواد مستند ہو
ھ : کتاب کا بیان تسلسل کے ساتھ ہو, اور صرف مستند اور محقق تفصیل بیان کی گئی ہو, اختلافی اقوال بیان نہ کیا گئے ہوں
و : کتاب درسی مقاصد کے لیے لکھی گئی ہو کسی اور ردعمل میں تحریر نہ کی گئی ہو
ز : کتاب میں حوالہ جات کی بھرمار نہ ہو, نا اقتباسات شامل کیے جائیں, آخر میں متعلقہ کتابیات درج کرنا کافی ہے
ح : کتاب مسلسل بیان یا اسلوب میں تحریر کی جائے
ان شرائط کی تکمیل کرنے کے لئے کم از کم اردو زبان میں کوئی کتاب ایسی موجود نہیں، جسے بے دھڑک تجویز کیا جاسکے ۔پڑھانے والے استاد کے لیے البتہ کچھ حدود، عنوانات اور معاون کتب متعین کی جاسکتی ہیں، لیکن عربی میں تدریس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ سیرت ابن ہشام کو بنیاد بنایا جائے اور سہیلی کی شرح الروض الانف کو مطالعے میں رکھا جائے ۔
ھذا ما عندی
سید عزیز الرحمن

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *