مسئلہ انکار حدیث اور ہم۔ سید عزیز الرحمان
مسئلہ انکار حدیث اور ہم
بہت سے دیگر مسائل کی طرح انکار حدیث کے حوالے سے بھی ہم بہت سی وجوہ سے افراط اور تفریط کا شکار نظر آتے ہیں۔ پھر ایک ہمارا عمومی مزاج ہر ہر معاملے میں فہرست کی طوالت کا بھی ہے، اس لیے بھی ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہماری فہرست دوسروں سے زیادہ بڑی ہو، تاکہ ہماری تحقیق کی دھاک دوسروں پر بیٹھ سکے، اس لیے بھی منکرین حدیث کی فہرست طویل سے طویل ہوتی چلی جاتی ہے، لیکن اس سے پہلے اصولی طور پر ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ محض روایات حدیث کا انکار تیکنیکی اعتبار سے انکار حدیث نہیں کہلاتا۔انکار حدیث دراصل حجیت حدیث کا انکار ہے، حدیث سے مسائل کے اخذ و استنباط کے معاملے میں مکمل طور پر صرف نظر کرنا انکار حدیث کہلاتا ہے۔حدیث کی روایات میں جرح و تعدیل سے کام لینا اور استنباط حدیث کے حوالے سے بھی اصول اور ضوابط میں اختلاف ایک زمانے سے کیا خود عہد صحابہ سے چلا رہا ہے۔ یہ امت کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
ہمارے ہاں خصوصا بر عظیم پاک و ہند میں جو لوگ منکر حدیث مشہور ہوئے ہیں۔ ان میں تین طرح کے لوگ ہیں۔
الف: ایک وہ ہیں جو واقعی حجت حدیث کا انکار کرتے ہیں. ب:ایک گروہ وہ ہے، جس نے حدیث کی حجیت کا انکار کسی زمانے میں ضرور کیا تھا، لیکن ان کے آخری زمانے کی تحریریں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ وہ حجیت حدیث کو جمہور امت کی طرح تسلیم کرتے تھے۔اس گروہ میں سب سے نمایاں نام غلام جیلانی برق کا ہے،اور بعض حضرات اسی مفہوم میں مولانا تمنا عمادی کو بھی اسی گروہ کا حصہ تصور کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے آخری زمانے کی تحریر حجیت کے حدیث کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک موقف کی حامل ہے۔لیکن آج بھی منکرین حدیث کے حوالے سے شائع ہونے والی تحریروں اور کتابوں میں ان دونوں حضرات کو منکر حدیث شمار کیا جا رہا ہے، جو حد درجے قابل افسوس ہے۔
ج: اور تیسرا گروہ وہ ہے جن کی تحریروں میں بہت سی روایات حدیث کا انکار ہے، لیکن وہ محض روایات حدیث کا انکار کرتے ہیں،حجیت حدیث کا نہیں، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ حضرات دوسرے مقامات پر احادیث کی روایات سے استنباط و استشہاد بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس سلسلے میں ان کا منہج وہی ہے جو محدثین کا ہے، یعنی راویوں کی بنیاد پر حدیث پر ضعیف یا موضوع ہونے کا حکم لگانا۔اس ضمن میں کسی بھی شخص کے حکم کو چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے اور علمی بنیادوں پر ان کی رائے سے اتفاق اور اختلاف کی راہیں بھی واضح ہیں۔ اس معاملے میں کچھ لوگ متشدد بھی قرار دیے جا سکتے ہیں، کچھ لوگوں کے منہج پر بھی گفت گو ہو سکتی ہے، اور ان کے رویوں کے اعتبار سے بعض صورتوں میں شاید انہیں گم راہ بھی قرار دینا ممکن ہو، لیکن ان پر حجیت حدیث کا انکار بہ ہرحال ثابت نہیں ہوتا، ویسے بھی یہ پہلو حد درج احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔
اس بنا پر ان دونوں آخر الذکر گروہوں کو محض ناواقفیت کی بنیاد پر منکر حدیث قرار دینا احتیاط کے خلاف ہے، اس لیے اس احتراز ہونا چاہیے۔
سید عزیز الرحمن